یہ کہانی محض فکشن پر مبنی ہے اور اس کا مقصد صرف قارئین کو ایک جذباتی اور فکٹری منظر سے متعارف کرانا ہے۔ اس میں موجود تمام کردار، واقعات، اور حالات خیالی ہیں اور کسی بھی حقیقی شخصیت یا واقعے سے مماثلت محض اتفاقی ہے۔ خودکشی کے متعلق یہ کہانی صرف آگاہی پیدا کرنے کے لیے لکھی گئی ہے اور اس کا مقصد کسی کو بھی ایسا قدم اٹھانے کی ترغیب دینا نہیں ہے۔ اگر آپ یا آپ کے جاننے والے کسی ذہنی یا جذباتی دباؤ کا شکار ہیں، تو براہ کرم پروفیشنل مدد حاصل کریں۔ زندگی قیمتی ہے، اور ہر کسی کو خوشی اور سکون کی زندگی جینے کا حق حاصل ہے۔ This story is purely fictional and is intended to introduce readers to an emotional and thought-provoking narrative. All characters, events, and situations in this story are imaginary, and any resemblance to real persons or events is purely coincidental. This story is written solely for awareness purposes regarding suicide and mental health, and it is not meant to encourage anyone to take such drastic measures. If you or someone you know is struggling with mental or emotional distress, please seek professional help. Life is precious, and everyone has the right to live a life full of happiness and peace.
نویں جماعت کی سویرا اپنی کیمسٹری لیب میں بیٹھی تھی، اُس کے سامنے کاپر سلفیٹ کی بوتل پڑی تھی۔ دل کے اندر چلنے والی سرگوشیاں اب حد سے بڑھ گئیں تھیں۔ وہ درد سہتے سہتے تھک چکی تھی، اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا، اسی لیے وہ اب یہ انتہائی قدم اٹھانے جا رہی تھی۔
اُس کی کیمسٹری کی استانی نے ڈسپلیسمنٹ ریکشن میں بتایا تھا کہ کاپر سلفیٹ کو نیلا تھوتھا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ ایک زہر ہے جو جسم کو آہستہ آہستہ نگل لیتا ہے، بالکل ویسے ہی جیسے سویرا کو حالاتِ زندگی نے آہستہ آہستہ ختم کر دیا تھا۔ آج وہ اس زہر کو اپنے دل میں اتار کر ان تمام سرگوشیوں سے آزاد ہونا چاہتی تھی جو اس کے اندر طوفان برپا کیے ہوئے تھیں۔
سویرا کی زندگی میں سرگوشیاں صرف اس کے اندر کی آوازیں نہیں تھیں، بلکہ ہر وہ لفظ تھے جو کبھی اس کے دل کو زخمی کر گئے۔ وہ آوازیں جو والدین کی بے توجہی، معاشرے کے طنز، اور ناکامی کے خوف سے جنم لیتی تھیں۔
اس نے لرزتے ہوئے ہاتھوں سے بوتل اٹھائی، اسے بغور دیکھا، اس کی نظر میں اس اذیت بھری زندگی سے سبکدوش ہونے کا راستہ صرف اس بوتل میں موجود تھا۔ اس نے آنکھیں بند کر کے ایک لمبا سانس کھینچا پھر اُس کے ذہن میں سرگوشیوں کا شور اُٹھا۔ اس کے سامنے پہلا منظر اُس کے بچپن کا لہرایا، وہ بچپن جس میں اسے سراہنے کی بجائے ہمیشہ نیچا دکھایا گیا۔ ہمیشہ اسے شیراز سے کمتر جانا گیا۔ ہر چیز میں اس کا موازنہ اس کے بڑے بھائی شیراز سے کیا جاتا رہا، خواہ وہ تعلیمی میدان ہو یا کوئی اور، وہ دونوں مختلف شخصیات کے مالک تھے۔ البتہ سویرا کے دل میں کچھ الگ کرنے کی خواہش ضرور تھی۔ مگر ہر بار اسے دھتکار ملی، نویں جماعت میں آنے کے بعد اب وہ مزید کچھ کرنے سے قاصر تھی۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کے اساتذہ سے ملنے والا اعتماد بھی اب دم توڑنے لگا تھا۔ اب وہ اپنے اندر کے طوفان کو مزید نہیں جھیل سکتی تھی۔
کاپر سلفیٹ کے نیلے ذرے اس کے لبوں سے چھوئے، تو اسے یوں لگا جیسے زندگی نے آخری بار اپنے درد کو اس کے وجود میں انڈیل دیا ہو۔ اس نے گھر والوں کی عدم توجہی اور تلخ رویوں کے باعث خلوص اور توجہ کو غیروں میں ڈھونڈنا شروع کر دیا اور اسے اپنائیت کا دلفریب احساس وقاص نے دلایا۔ وہ اس کے گھر کے قریب ہی رہتا تھا۔ وہ بیچاری، حقارت کی ماری، محبت کی پیاسی اس کی جھوٹی باتوں میں بہکتی چلی گئی۔ اس بات کی خبر جب سویرا کے گھر والوں کو ہوئی تو انہوں نے اسے بہت برا بھلا کہا۔ وہ فقط ایک گالی بن کے رہ گئی تھی۔ “کہنے کو سب اپنے ہی تھے مگر کوئی اپنا نہ تھا”۔ اس بات کے بعد وقاص یوں پیچھے ہٹ گیا جیسے وہ سویرا کو جانتا ہی نہ تھا۔
وہ زہر، جو موت کا وعدہ لے کر آیا تھا، اس کے گلے سے گزرتے ہی جیسے ایک دہکتی ہوئی لو بن گیا۔ گلے میں جلتی ہوئی چنگاریاں گلا چیرنے لگیں، دل کی دھڑکن تیزی سے بے ترتیب ہوئی، اس کی ہر سانس ایک قیامت، اور ہر لمحہ اس فیصلے پر پچھتاوا تھا لیکن وہ جانے انجانے ایسی منزل کی جانب قدم اٹھا چکی تھی جہاں کوئی بھی راستہ اسے واپس نہ لے جا سکتا تھا۔ زہر کا گھونٹ بھرتے ہی اس نے آنکھیں میچ لیں۔
“تم کبھی کچھ نہیں کرسکتی۔ تم میرے قابل نہیں ہو۔ اپنی شکل دیکھو آئینے میں۔ اپنی اوقات مت بھولا کرو، تمہارا اور میرا کوئی مقابلہ نہیں ہے۔ میں سویرا سے محبت نہیں کرتا، یہ میرے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔ اس بار بھی دو مضامین میں فیل ہے۔ لگتا ہے ہمیں مار کر ہی دم لے گی، یہ خود کیوں نہیں مر جاتی؟ رحمت نہیں زحمت بن کر نازل ہوئی ہے ہم پر۔ کبھی کوئی سکھ نہیں دیا۔ اب ہمیں اپنی شکل نہ دکھانا۔”
یہ سرگوشیاں چار سو پھیلنے لگیں۔ زہر اس کے جسم کے ساتھ اس کی روح کو بھی چیرتا جا رہا تھا، وہ اپنی زندگی کو اپنے ہی ہاتھوں اس دردناک انجام تک پہنچا رہی تھی۔ زہر نے اثر کرنا شروع کیا۔ اس کے ہاتھ سے کاپر سلفیٹ کی بوتل پھسلتی چلی گئی۔ منظر دھندلانے لگا، سرگوشیاں مدھم ہو گئیں۔ اور پھر آہستہ آہستہ مکمل اندھیرا چھا گیا۔ سرگوشیاں دم توڑ گئیں۔ اور پھر نہ کبھی نہ ٹوٹنے والا سکوت چھا گیا۔ وہ سویرا ہونے کے باوجود اپنی زندگی میں اندھیرا کر گئی۔ اب ہر طرف ابدی خاموشی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب اس کی آنکھ کھلی تو ہر طرف ان کہی خاموشی تھی۔ ایک عجیب سی تکلیف کا احساس ہو رہا تھا۔ خاموشی کا پہر اب بھی موجود تھا۔ وہ اندازہ نہیں کر پا رہی تھی کہ وہ اس وقت کہاں موجود تھی۔ کیا وہ قبر میں تھی؟ اس کے دل میں سوال اٹھا۔ اس نے کچھ ٹٹولنا چاہا۔ اتنے میں اس نے قدموں کی چاپ سنی۔ کسی نے اس کے پاس آ کر اسے کندھے سے ہلایا۔
“سویرا میری جان، آنکھیں کھولو۔”
اسے یہ آواز کچھ مانوس سی لگی۔ اس نے آنکھیں بند کر کے دوبارہ کھولیں تو ہلکی ہلکی روشنی نے اس کا استقبال کیا۔ وہ ہسپتال کے کمرے میں تھی۔ اس کی والدہ اس کا ہاتھ تھامے اس کے سرہانے کھڑی تھیں۔ بیڈ کی پائینتی کی طرف اس کے والد اور بھائی کھڑے تھے۔ اسے بلکل اندازہ نہیں تھا کہ زہر نگلنے کے بعد کیا ہوا تھا۔ وہ بس بے یقین سی سب دیکھ رہی تھی۔ اس نے ذرا بھی نہ سوچا تھا کہ موت کو گلے لگانے کے بعد بھی زندگی اسے اپنا لے گی۔
وہ بلکل بے جان بیٹھی تھی۔ آنکھوں میں عجیب سی کشمکش تھی۔ ڈاکٹر اس کا معائنہ کر رہے تھے۔ اس نے پہلی بار اپنے لیے اپنے ماں باپ کو پریشان دیکھا تھا۔ ان کی آنکھوں میں نمی تھی جس میں رنج و خوشی کے ملے جلے تاثرات تھے۔
اتنے میں اس کی دوست شگفتہ پھولوں کا گلدستہ لیے کمرے میں داخل ہوئی۔ سویرا کا بھائی اور والد ڈاکٹر کے ہمراہ کمرے سے باہر نکل گئے۔ شگفتہ کے آنے سے کمرہ مہک اٹھا تھا۔ سویرا کی آنکھوں میں کئی سوال تھے۔ شگفتہ نے نرمی سے اس کا ہاتھ تھاما اور اس کی طرف متوجہ ہوئی۔
“زندگی اتنی بے مول تھی تمہاری نظر میں کہ تم نے یہ قدم اٹھایا؟ اگر اس دن میں وقت پر تمہیں نہ دیکھتی تو تم منوں مٹی تلے قیامت تک قائم رہنے والی اذیت سہتی۔ خودکشی حرام ہے تم جانتی ہو نا؟ یہاں کسی کی بھی زندگی آسان نہیں تو کیا سب ان کا مقابلہ کرنے کی بجائے زہر پی لیں؟”
وہ بے تاثر اسے سنتی رہی۔
“کیوں بچایا مجھے؟ میرا کوئی نہیں ہے۔ اور تم مجھے ایسے باتیں نہیں سنا سکتی کیوں کہ تم میری کہانی سے واقف نہیں۔ روز اپنوں سے ملنے والے زہر سے بہتر تھا کہ ایک ہی بار زہر پی کے سب کی زندگی آسان کر دیتی۔”
آخری جملہ بولتے ہوئے اس نے کرب سے اپنی والدہ کی طرف دیکھا۔ وہ پہلے سے کمزور ہو گئی تھیں۔ چہرہ بلکل بے رونق تھا۔ وہ اس کی بات سن کر رونے لگیں۔
شگفتہ اس سے مخاطب ہوئی، “مانا میں تمہارے حال سے بے خبر تھی۔ لیکن اس ایک ماہ میں سب جان چکی ہوں۔”
سویرا نے دکھی لہجے میں کہا: “کیا ایک ماہ گزر گیا ہے؟”
شگفتہ نے جواب دیا: “ہاں! یہ زندگی اللہ نے تمہیں دوبارہ امانت کے طور پر دی ہے۔ بھول جاؤ سب۔ تمہارے گھر والوں کو ان کی غلطی کا احساس ہو چکا ہے۔”
اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔ اس کے والد کمرے میں آئے۔ وہ لوگ کسی مجرم کی طرح سر جھکائے اس سے معافی مانگ رہے تھے۔
“سویرا تم ہمارا قیمتی سرمایہ ہو۔ ہم سے بہت غلطیاں ہوئیں۔ ہم تمہیں سمجھ نہ سکے۔ ماں باپ کو اپنی اولاد بہت پیاری ہوتی ہے۔ تم لوگوں سے ہم ہیں۔ سویرا میری جان ہمیں معاف کر دو۔ کیا کوئی اپنے ماں باپ کو اتنی بڑی سزا دیتا ہے؟”
ضبط کے موتی اس کی آنکھوں سے ٹوٹ کر بکھرنے لگے۔ اب اسے سرگوشی سنائی دی، “تمہاری زندگی کا ایک مقصد ہے۔ تم بیکار نہیں ہو۔ تمہیں نئے سرے سے جینا ہے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر زندگی کو نئے سرے سے جینا ہے۔”
اس نے بازو پھیلا کر ممتا اور شفقت کی ٹھنڈک کو گلے سے لگایا۔ اس نے شگفتہ کو قابل رشک نظروں سے دیکھا۔
چار دن بعد اسے ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔ ڈسچارج والے دن وہ شخص اسے ہسپتال ملنے آیا جو اسے اس مقام پر پہنچانے میں برابر کا حصہ دار تھا۔ اس نے سویرا کے قدموں میں گر کر معافی مانگی جس پر سویرا نے فقط خاموشی اختیار کی۔ اسے اب ایسی فانی محبتوں میں کوئی دلچسپی نہ رہی تھی۔ کیونکہ اسے اب لافانی محبت مل چکی تھی۔
گھر آنے کے بعد اس نے بہت سی تبدیلیاں محسوس کیں۔ سب نیا نیا سا اچھا سا لگ رہا تھا۔ لیکن کچھ تھا ابھی بھی جو اسے ایک ادھورا احساس دلا رہا تھا۔
کچھ دن بعد وہ رات کے وقت اپنے کمرے میں بیٹھی ڈائیری لکھ رہی تھی:
“میرے دل میں اب بھی گہرے اندھیرے چھائے ہیں۔ لیکن اب میں لڑوں گی۔ مجھے دوبارہ زندگی ملی ہے۔ میں اب اسے ضائع نہیں کروں گی۔ میں سویرا ہوں، میں اپنی زندگی کی سویرا ہوں۔ میں ایک نیا آغاز ہوں۔”
اسی وقت کسی کی باتوں کا شور سا ہوا۔ اس نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولی تو کچھ بھی نہیں تھا۔ ہر طرف خاموشی چھائی تھی۔ ہوا بھی تھمی ہوئی تھی۔ پھر اسے ایک سرگوشی سنائی دی:
“کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی سویرا، تم اپنے ماضی کو فراموش کر کے نہیں جی سکتی۔”